ایک مرتبہ ایک عیسائی پادری اپنی بیوی کے ساتھ ایک بزرگ کی خدمت میں حاضرہوا اورکہنے لگا:مجھے دینِ اسلام میں داخل فرمالیں۔ان بزرگ نے عیسائی پادری اور اس کی بیوی کو دائرہ اسلام میں داخل کر دیا۔ اس وقت ان بزرگ کا ایک نوجوان بیٹا بھی موجود تھا۔ سابقہ عیسائی پادری نے جو ابھی ابھی مسلمان ہوا تھامحسوس کیا کہ بزرگ اور ان کانوجوان بیٹا دونوں نگاہیں جھکائے بیٹھے ہیں، یہ دیکھ کر بہت متاثر ہوا، ان بزرگ کوآج دنیا امیر اہلسنت مولانا الیاس قادری اور اس باحیاء نوجوان کو جانشین امیر اہلسنت مولانا عبیدرضاعطاری کے نام سے جانتی ہے۔ (تذکرہ جانشین امیر اہلسنت، ص11)
جوانی
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے۔جوانی ایسی بہار اور ایسی نعمت ہے جس کی قدر وقیمت کا اندازہ بڑھاپے کے خزاں میں ہی ہوتا ہے اور پھر عربی کے مشہور مقولے
’’لَیْتَ الشَّبَابَ یَعُوْد‘‘ کاش! جوانی لوٹ آئے، کی تمنا جسم سےاٹھتی ہر ٹیس کےساتھ انگڑائی لینے لگتی ہے مگر’’ اب کیا پچھتاوے ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘ ایک آہ ِسرد کے ساتھ ماضی کی جھلک آنکھوں کو نمدیدہ کر دیتی ہے،اب سوائے کاش! کاش! کے کچھ باقی نہیں رہتا، اسی لیے تو اللہ کے رسول
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمْ نے فرمایا: پانچ کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو
- موت کو زندگی سے پہلے
- فرصت کو مشغولیت سے پہلے
- مالداری کو تنگدستی سے پہلے
- جوانی کو بڑھاپے سے پہلے اور
- تندرستی کو بیماری سے پہلے۔
(مصنف ابن ابی شیبة، ۸/۱۲۷ ،حدیث: ۱۸)
جوانی میں انسان انتہائی مشکل اور مشقت والا کام بھی کر لیتا ہے مگر بڑھاپے میں اس کا سوچ بھی نہیں سکتا، جوانی میں عقل کامل، اعضا طاقتور اور اعصاب مضبوط ہوتے ہیں لہذا کام اتنا ہی اچھا ہوتا ہے،کاش! جس طرح ہم جوانی میں دنیا کے کام بخوبی انجام دیتے ہیں اسی طرح فکرآخرت کرتے ہوئے دینی معاملات اور عبادات پر بھی توجہ دیں، کیونکہ کل قیامت میں پوچھا جائے گا کہ جوانی کس کام میں گزاری؟چونکہ جوانی میں نیک و بداعمال زیادہ کیے جاسکتے ہیں کہ اس وقت ساری قوتیں اپنے کمال پر ہوتی ہیں اس لیے جوانی کے متعلق خاص سوال ہوگا۔ حدیث پاک میں ارشاد ہوتا ہے:’’جو جوانی میں عبادت کرے وہ عرش الہٰی کے سائے میں ہوگا کہ اسے قیامت کے میدان کی گرمی نہ پہنچے گی‘‘(صحیح بخاری)۔
جوانی کی عبادت بڑی قدر کی چیز ہے۔شعر
کر جوانی میں عبادت کاہلی اچھی نہیں جب بڑھاپا آگیا کچھ بات بن پڑتی نہیں
ہے بڑھاپا بھی غنیمت جب جوانی ہوچکییہ بڑھاپا بھی نہ ہوگا موت جس دم آگئی
چنانچہ موصوف کی زندگی کا ایک اورواقعہ ان نوجوانوں کی آنکھوں سے غفلت کا پردہ ہٹانے کے لیے پیش خدمت ہے جو بڑھاپےمیں عبادت اور توبہ کی آس پر اپنی جوانی کو دین سے دوری اور پیارے خداجَلَّ جَلَالُہ کی نافرمانی کی نظر کر دیتے ہیں ،جانشین امیر اہلسنت اپنے پتھری کے آپریشن کے بعدکسی کے ہاں بغرضِ آرام مہمان بنے، میزبان کا بیان ہے کہ رات کے ایک پہر مجھے گھر سے رونے کی آواز آئی، میں سمجھا بچے رو رہے ہیں، کچھ غور کیا تو معلوم ہوا یہ آواز تو میرے مہمان کی آرام گاہ سے آرہی ہے، بھاگا بھاگا وہاں پہنچا، دروازے پر دستک دی، اجازت ملتے ہی بیتابانہ اندر داخل ہوا، دیکھا تو نوجوان مہمان کی آنکھوں سے آنسو کی لڑی جاری تھی، میں نے نہایت ادب سےعرض کی:جناب! رونے کا سبب کیا ہے؟دلوں کو جھنجھوڑنے اور آنکھوں کو کھولنے والا جواب میری سماعت سے ٹکرایا: رو اس لیے رہا ہوں کہ آج دنیا کی تکلیف کا یہ عالم ہے تو نزع کی سختیوں، قبر کے عذاب اور میدان محشر کی ہولناکیوں کا کیا عالم ہو گا۔۔!(تذکرہ جانشین امیر اہلسنت، ص16)
جوانی میں توبہ کی فضیلت:
جوانی میں توبہ کی فضیلت کے بارے اللہ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمْ فرماتے ہیں :جوانی میں توبہ کرنے والا شخص اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے۔(کنز العمال) ایک حدیث مبارکہ کے مطابق اللہ پاک کو توبہ کرنے والے نوجوان سے زیادہ پسندیدہ کوئی نہیں۔(کنز العمال) فارسی کاایک شعر ہے:
دَرْ جَوانِی تَوْبَہ کَرْدَن شَیْوَۂِ پَیْغَمْبَرِیوَقْتِ پِیْرِی گُرْگِ ظَالِمْ مِیْ شَوَدْ پَرْہیزْگَار
یعنی جوانی میں استغفار کرنا نبیوں کی سنّت ہے ،ورنہ بڑھاپے میں تو ظالم بھیڑیا بھی پرہیز گاری کا لباس اوڑھ لیتاہے۔
اب سوال یہ بنتا ہےکہ جوانی میں عبادت کرنے والا اللہ کا محبوب کیوں بن جاتا ہے ؟مشہورمبلغ اسلام حضرتِ علامہ شیخ شعیب فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ اس وقت اپنے بندے سے محبت فرماتا ہے جب وہ جوانی میں توبہ کرنے والا ہو کیونکہ نوجوان تراورسرسبزٹہنی کی طرح ہوتاہے،جب وہ اپنی جوانی اور ہر طرح کی خواہشات ولذات سےفائدہ اٹھانے اوردل گناہ کی طرف مائل ہونے کی عمرمیں توبہ کرتاہے۔تو اس وقت دنیا اس کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ اس کے باوجودوہ ان تمام چیزوں کوصرف اللہ کی رضاکے لئےچھوڑدیتا ہے تو اللہ تعالی ٰکی محبت کا حقدارقرار پاتاہے اوراس کے مقبول بندوں میں شامل ہو جاتا ہے۔
حضرتِ منصور بن عمارر حمۃ اللہ علیہ نے ایک نوجوان کو نصیحت کرتے ہوئے کہا:اے جوان! تجھے تیری جوانی دھوکے میں نہ ڈال دے، کتنے ہی جوان ایسے تھے جنہوں نے توبہ کو مؤخر اور اپنی امیدوں کو لمبا کر دیا، موت کو بھلا دیا اور یہی کہتے رہے کہ کل توبہ کر لیں گے، پرسوں توبہ کرلیں گے یہاں تک کہ اسی غفلت میں ملک الموت آگئے اور وہ غافل نوجوان اندھیری قبر میں جا پہنچے۔ انہیں نہ مال نے، نہ غلاموں نے، نہ اولاد اور نہ ہی ماں باپ نے کوئی فائدہ دیا۔
روتی ہےشبنم کہ نیرنگِ جہاں کچھ بھی نہیںخندہ زن ہیں بلبلیں گل کا نشاں کچھ بھی نہیں
چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہےیہ تیرا حُسْن وشَباب اے نوجواں ! کچھ بھی نہیں